سردارجعفری ترقی پسند تحریک کے اہم ستون: پروفیسراقتدارحسین
سردارجعفری نے فکروفن کی گہرائی وگیرائی سے پوری نسل کومتاثرکیا:اطہرنبی
لکھنؤ5جون(آئی این ایس انڈیا)سردارجعفری ترقی پسندتحریک کے نہ صرف اہم ستون بلکہ ترقی پسند تحریک کے سالاروں میں سے تھے اور ترقی پسندی کے اصولوں کے پابند تھے۔وہ بیک وقت شاعر،محقق،نقاد اور مترجم تھے لیکن ان کو مقبولیت کے بام پر ان کی شاعری نے چڑھایا۔ان کی نظموں نے اردوشاعری کو ایک تیور اورلب ولہجہ دیا ان کی انفرادیت کا اعتراف ناقدین وقت کو بھی کرنا پڑا۔ان کی بیشتر غزلوں میں جوش،بلندآہنگ اور تیزوتند لہجہ ملتا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ سردار جعفری غالب،اقبال سے زیادہ متاثر ہیں۔مذکورہ خیالات کااظہارہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی کے زیر اہتمام اورقومی کونسل برائے فروغ اردو کے اشتراک سے کئے گئے سیمینار میں ’’سردارجعفری فن وشخصیت ‘‘کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر اقتدار حسین نے کیا،سمینارکاافتتاح نوشاد سنگیت اکیڈمی ،خرم نگرمیں آج معززین شہر کے ذریعے کیاگیا۔صدرجلسہ نے آگے کہاکہ سردار کے یہاں فن جمالیاتی تسکین کا وسیلہ نہیں بلکہ انسانیت کے فروغ کا محرک ہے ،کیونکہ ان کے یہاں جمالیات کاتصور انسانی اقدار پر مبنی ہے۔سردارکی غزلیہ شاعری کبھی بے سمت رومانیت اوربے جہت افلاطونیت کا شکارنہیں ہوئی بلکہ ان کی غزلوں میں واقع مفہوم،متعین خیالات اور بے باک اظہار کے نقوش ملتے ہیں اور ترقی پسند فکر اوراظہار کی شناخت رکھتے ہیں۔ایوارڈ کمیٹی کے سیکریٹری سید اطہر نبی نے اپنے مقالہ میں کہا کہ سردارجعفری کے یہاں فن اور موضوعات دونوں کو اہمیت حاصل رہی ہے۔موضوعات کاتعلق تو ان کے مخصوص نظریے سے ہوتا تھا تاہم وہ ہرگام ہر شاعری کوفنی بلندیوں تک لے جاتے رہے،ان کی شاعری کی ایک اہم جہت امیجری یاپیکر تراشی ہے۔سردار جعفری کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے فکروفن کی گہرائی وگیرائی سے پوری نسل کومتاثر کیا۔اطہرنبی نے بتایا کہ ہم جعفری کے فن کامطالعہ کرتے ہیں تو جعفری کے یہاں مختلف شعری جہات دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں موضوع،ہیئت ،فن ہرسطح پر انہوں نے کامیاب تجربے کئے ہیں گرچہ ان کی پوری شاعری ترقی پسند تحریک کے مقاصد سے عبارت ہے لیکن شعری لب ولہجہ کی شیرنیت،صفتوں کاخوبصورت استعمال،اشاریت وایمانیت اور دیگر فنی امتیازات جعفری کو کئی ترقی پسند شعراء سے ممیز وممتاز بناتے ہیں۔ضیاء اللہ صدیقی ندویؔ نے سمینار میں کہا سردار جعفری نے عورت سے متعلق جن نظریات کو پیش کیا ہے وہ حقائق پر مبنی ہیں۔اپنی شاعری میں اس کی بے چارگی اورزبوں حالی تک محدود مخلوق کو انسان کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ہندوستان میں خواتین پر ہونے والی زیادتیوں کی طرف اشارے ملتے ہیں،ان کے اشعار میں عورت کی بہادری کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔وہ صنف نازک ہوتے ہونے کے باوجود تاریخوں میں اپنالوہا منواسکتی ہیں۔اس لئے شاعر نے لکھا ہے ٹھوکروں پر اس کے جھک سکتے ہیں ایوان تصور۔اگر صحیح رہنمائی ملے تو عورت اپنی قوت ارادی سے چٹانوں کاسینہ چیرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔جعفری کی نظم’’سرمایہ دار لڑکیاں ‘‘میں خواتین کی صفات،اخلاق عادت واطوار اورنفسیات کی پوری عکاسی کی ہے۔ڈاکٹرمولانافخرالدین ندوی نے اپنے مقالے میں کہا کہ سردارجعفری ناانصافی اورظلم کے تمام نظام کومٹادیناچاہتے تھے۔و ہ اپنی غزلوں اورنظموں کے ذریعے اپنے افکار اوراحساسات سئے مطلع کرنے کے ساتھ ساتھ عوام اورقاری کے جذبات میں ہیجان،ہلچل پیداکرنااورن کی فکر کو متاثرکرناچاہتے تھے۔سردارجعفری کی دیگر خدمات میں نیاادب لکھنؤ اور گفتگو سہ ماہی ممبئی بہت اہم ہیں ۔گفتگو میں انہوں نے اس زمانے میں ابھرنے والے فنکاروں کو بھی نمائندگی دی تھی۔ابتدا میں انہوں نے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کی۔انہوں نے آخری دورمیں بعض دساتویزی فلموں کی کہانی اورمکالمے لکھے،آزادی کے سوسال کی دستاویزی فلم کی ہدایت بھی کی۔کئی سال تک ٹی وی سیریل محفل یاراں کے پروڈیوسر بھی رہے۔سردار جعفری نے کہکہشاں کے نام سے اردوشعراء حسرت موہانی،جوش ملیح آبادی،جگرمرادآبادی،فراق گورکھپوری،مخدوم،مجازاورفیض احمد فیض پر ٹی وی سیریل بنائے۔سردار جعفری ترقی پسند ادیبوں کے سرخیل ہی نہیں اردو تحریک کے رہنما تھے۔مشہورادیب سہیل کاکوروی نے کہاکہ سردار جعفری کی غزلوں میں جوش وجنون کی کارفرمائی نمایاں ہے۔پیغام پہچانے کی تڑپ اوردنیا کو بدلنے کی کوشش،ان کی شاعری میں صاف نظرآتی ہے،ان کی اصل پونجی ترقی پسند افکار ونظریات ہیں وہ اس تحریک سے جذباتی وابستگی،عملی مظاہرہ،اورفکری تعلق قائم آتے ہیں،سہیل کاکوروی نے مزید کہا کہ علی سردارجعفری کی شاعری انسان دوستی،روشن خیالی،امن ومحبت،رواداری اورزندگی کے مثبت تصورات کی عکاسی کرتی ہے۔سردارجعفری کے فکروفن کاجائزہ لینے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے وہ خالص ترقی پسندی کی عمدہ مثال کہلائے جاسکتے ہیں۔سمیناکو خطاب کرتے ہوئے ایس این لال نے کہاکہ سردارجعفری بنیادی طور پر شاعر ہیں اور اپنی شاعری سے زندگی کی اعلیٰ اقدار،انسانیت،روشن خیالی،امن ومحب،رواداری اورحقیقی زندگی کی خوبصورت نقاشی کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی شاعری کو ترقی پسند نظریات کی اشاعت کیلئے ایک موثرہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔انہوں نے نظموں کے ساتھ ساتھ غزل میں بھی حیات کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا۔علی سردار جعفری کی زندگی ترقی پسند تحریک کے فروغ واشاعت میں گزری،ان کی یہ وابستگی نہ صرف شعروادب ہی تک رہی بلکہ انہوں نے کمزوروں اورمزدوروں کی حمایت میں قیدوبند کی کی صعوبتیں،برداشت کرنے کا عملی مظاہرہ کیا جو سردار کے مضبوط عقیدے اورمربوط اعتماد کو نمایاں کرتا ہے۔ترقی پسند تحریک کے زیر اثرسردارجعفری نے مستقل عنوانات پر مختصراورطویل نظمیں کہیں اور اس طرح اردوشاعری میں مقصدی اورموضوعاتی نظموں کو اہمیت حاصل ہوگئی۔ڈاکٹرسید محمدصبیح ندوی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سردارجعفری کے ہم عصروں میں فیض،مجاز،جذبی،فراق اورمجروح ایسے شاعر تھے جن کی غزلوں کے آہنگ میں آہستہ روی،فرحیت اورسرگوشی کاساانداز ہے لیکن اس کے برخلاف سردار جعفری کی غزلوں کے آہنگ میں تیزی،تندی اورکرختگی ہے جو ان کے نظریات کی پابندی کی وجہ سے پیداہوئی۔جعفری کی غزلوں کاوالہانہ اورخطبانہ انداز ایک نئی اشاریت سے آشنا بھی کرتی ہے جو اردو غزل میں اس سے پہلے کہیں نہیں ملتی۔سردار نے اردوغزل کوپہلی بار زندگی کے بنیادی مسائل سے ہم کنارکیا۔سمینارمیں خطاب کرتے ہوئے اشرف علی ندویؔ نے کہاکہپ علی سردار جعفری عہد آفریں شاعر، ذی فہم ادیب،بالغ النظر نقاد،اعلیٰ درجہ کے نثرنگار،ماہر اقبالیات،بے باک صحافی اور ایک عظیم شاعر تھے۔ان کے دس شعری مجموعے شائع ہوئے۔سمینار کے دیگر مقالہ نگارں میں ڈاکٹر عبدالرحمن گورکھپور،ڈاکٹرعارف پرتاپ گڑھ،ڈاکٹراسعدبہار،ڈاکٹریونس سلیم،ڈاکٹرمظہر عالم،رفیع احمد،چودھری محمدیحییٰ سندیلوی،مولانااحمدسعود ندوی،مولانامطہر عالم ندوی،مولانا ثناء اللہ ندوی،مولاناابوظفرندوی ،محمدمعرف،محمدحامدوغیرہ تھے۔